سمیر ایک خوبصورت اور خوش اخلاق لڑکا تھا.. اس کے والد کا اپنا کاروبار تھا. خوشحال گھرانہ تھا. اس کے چند دوست تھے. جن سے شام میں ایک ہوٹل پر ملا کرتا تھا. عادات کا بہت اچھا تھا. لڑای جھگڑے سے نفرت تھی. خوش رہنے اور خوشیاں بانٹنے کی عادت تھی. سب کے کام آنے والا لڑکا تھا. بی کام کے پیپرز دیے تھے. اس کا رزلٹ آگیا تھا. اچھے مارکس سے پاس ہوا تھا. گھر میں خوشی منائ گئی.
سمیر نے یونیورسٹی میں داخلہ لیا. وہ بہت خوش تھا. روزانہ کلاس اٹینڈ کرتا. آج وہ پہلی کلاس اٹینڈ کرنے کے بعد یونیورسٹی کے گارڈن میں بیٹھا تھا..اور کسی کتاب کے مطالعے میں مصروف تھا. روزینہ اس کی طرف آتی دکھای دی. . اس کے قریب پہنچ کر بیٹھنے کی اجازت چاہی جو خوش اخلاقی کے مظاہرے کے ساتھ مل گئی اور کوئ کتاب نکال کر مطالعہ کرنے کے انداذ میں بیٹھ گئی.
سمیر کی اس سے جان پہچان تو نہ تھی. اتنا معلوم تھا کہ کلاس میں ساتھ ہے. اکثر نظر آی تھی. تھوڑی دیر کے بعد روذینہ سمیر کو مخاطب کرتے ہوے..
اکس کیوز می..
سمیر… جی فرمایے.
روزینہ… میں کل کلاس اٹیند نہیں کر سکی تھی.. کیا کل والے لیسن کو ساتھ ڈسکس کر سکتے ہیں
سمیر. شوور….
اور پھر اس طرح سے بات چیت کا آغاز ہوا تھا. اس کے بعد روزینہ نے شکریہ ادا کیا. جواب میں سمیر نے ویلکم کہا.. اور روزینہ مسکرا رہی تھی…
پھر ان کی تقریباً روز ہی کلاس کے وقفے میں ملاقات ہوتی.. سبجیکٹس پر ڈسکس ہوتی..
آہستہ آہستہ ان میں دوستی ہو گئی… اور دوستی گہری ہوتی چلی گئی.. کلاس ساتھ میں اٹینڈ کرتے.. لنچ ساتھ کرے.. حتیٰ کہ یونیورسٹی کا سارا وقت ساتھ میں گزرتا کیونکہ دونوں کی عادتین ایک جیسی تھی.فالتو تفریحات میں وقت ضائع نہ کرتے تھے.
دونوں ہی ذہین تھے. کوی غلط شوق یا مشاغل نہیں تھے. سمیر کے بارے میں تو روزینہ اکثر سوچتی شاید کوی فرشتہ ہے. اور پھر خود ہی اپنے خیال پر ہستی.. وہ تھا ہی ایسا شرم و حیا اس کی رگ رگ میں بسی ہوئی تھی. لڑکیوں سے ذیادہ ہی شرماتا تھا. روزینہ اس کی زندگی میں پہلی لڑکی تھی جس کے ساتھ وقت گزرا ہو. روزینہ کے ساتھ نظریں جھکا کر بات کرتا. روزینہ نے کبھی نہین دیکھا کہ وہ کسی لڑکی میں دلچسپی لے رہا ہو سیدہ سادہ شریف لڑکا تھا..لیکن بدو ہر گز نہیں تھا. اس کا اندازہ کل ہی ہوا تھا. جب ایک لڑکا یونیورسٹی میں بڑی ڈھٹای سے روزینہ سے نمبر مانگ رہا تھا. جیسے اس کی قرضدار ہو. روزینہ تو سٹپٹا گی.حالانکہ بہت خوبصورت دلکش اور ہر لحاظ سے پرفیکٹ لڑکی تھی لیکن ایسی سچویشن سے پہلی بار پالا پڑا تھا. اتنے میں سمیر آتا دکھای دیا اور روزینہ کو جسم میں جان آتی محسوس ہوی. وہ لڑکا روزینہ کا کوی ردعمل نہ دیکھتے ہوے پہلے سے ذیادہ بہادری کے ساتھ اپنا مطالبہ دہرا رہا تھا. لیکن اس جملے کے ختم ہوتے ہی اس کو دن میں تارے نظر آنے لگے جب سمیر کا ایک جچہ تلا ہاتھ اس کی کنپٹی پر پڑا تھا. اور وہ بھاگ نکلا. سمیر اس وقت بہت غصے میں معلوم ہوا تھا.. سارا دن یونیورسٹی میں گزرتا تھا.. کلاسز اور باقی ٹائم میں کمباین سٹڈی کرتے.. لنچ ساتھ ہوتا اور شام کی چاے کیفے پر پی کر گھر کی راہ لی جاتی. روز کا یہی معمول تھا.
خیر اب یونیورسٹی کا دور ختم ہونے والا تھا. چند دن باقی تھے. دونوں یونیورسٹی کے گارڈن میں بیٹھے تھے.. سمیر مطالعہ میں مصروف تھا. جبکہ روزینہ اپنے ہاتھوں کی انگلیوں کو مروڈر جارہی تھی.. اور چہرے پر پریشانی کے آثار تھے. اور سمیر کو گھورے جارہی تھی. جیسے اسے متوجہ کرنا چاہ رہی ہو. سمیر اس سے بے خبر مطالعہ میں غرق تھا.روزینہ کو خود ہی پہل کرنا پڑی.سمیر کو مخاطب کیا سمیر..
سمیر… جی..
روزینہ.. یونیورسٹی کے چند دن باقی ہیں..
سمیر… ہاں اتنا وقت گزر گیا پتہ ہی نہیں چلا.
روزینہ زبر دستی مسکرائ..
سمیر تم کچھ پریشان لگ رہی ہو. کوی پرابلم ہے..
روزینہ نہیں بس وہ سوچ رہی تھی چند دن باقی ہیں
سمیر.. ہاں ہاں تو…
روزینہ کیا ہم اس کے بعد بھی مل سکیں گے.
سمیر ہاں شاید…
روزینہ منہ پھیر کر دوسری طرف دیکھنے لگی.. جیسے سمیر کی اتنے سے جواب سے سخت مایوسی ہوئ ہو.
خیر یونیورسٹی کا دور ختم ہوا. مہینہ گزر گیا.. روزینہ اپنے روم میں اداس بیٹھی کھوئ ہوی تھی. اتنے میں اس کی ایک سال چھوٹی بہن نائلا کمرے میں داخل ہوی. روزینہ کو دیکھا اور متوجہ کرتے ہوے نکل آو اس کے خیالوں سے کہیں پاگل نہ ہو جاو.
روزینہ اس کی طرف دیکھ کر صرف بے دلی سے مسکراتی ہے. نائلا.. نہ جانے کیسا دوست تھا تمہارا 3 سال سے ساتھ اور نمبر تک نہیں مانگا تم سے اور تم اس سے بڑی بدو..
روزینہ… موبائل نہیں رکھا اس نے کہتا تھا ٹائم کا ضیاع ہے اور میں خواہ مخواہ پاگل ہو رہی ہوں شاید پچپن کی کوی منگنی ہو تبھی کسی لڑکی کو دیکھتا تک نہیں تھا..
نائلا ہونہہ 3سال سے ساتھ تھی.. تم اس کے بارے میں اتنا بھی معلوم نہ کر سکی.
روزینہ… وہ ذیادہ تر سٹڈی میں مصروف رہتا تھا.
نائلا. صرف ہوووں کر کے رہ گیئ. اب کیا ہو سکتا ہے.. وہ شادی بھی کر کے بچے پیدا کر کے کھیلا رہا ہو گا تم یہی بیٹھی قسمت کو روتی رہو.
روزینہ کی آنکھوں سے دو آنسو ٹپک کر گالوں پر بہہ رہے تھے. اور وہ کھڑکی سے باہر فضا میں گھورنے لگی.
یونیورسٹی سے فارغ ہوے چھ ماہ گذر گئے اور روزینہ سمیر کی طرف سے قطعی نا امید ہو چکی تھی. اپنے روم میں بیٹھی اہنے زہن سے سمیر کی یادوں کو چھٹکنے کو ہوری کوشش کر رہی تھی.. اتنے میں اس کی امی روم میں داخل ہوئیں بیٹی تم سے ایک بات کرنی تھی.
روزینہ جی امی بولیے..
امی… بیٹی تمیاری رضامندی جاننی تھی. تمہاری عمر شادی کی ہو چکی ہے.
روزینہ کے لیے یہ جملے غیر متوقع تھے. چہرے پر مرونی چھا گئی کمکش میں تھی کہ امی کو کیا جواب دے گی. حقیقت میں وہ خود کو سمیر کی قید سے آزاد نہیں کر پا رہی تھی.
امی.. بیٹی کل ایک رشتہ آیا تھا. میں نے جواب میں کہا تھا کہ تمہاری رضامندی کے بعد جواب دونگی.
روزینہ قطعی یہ جاننا نہ چاہتی تھی رشتہ کس کا ہے کہاں سے آیا ہے. اس کو سمجھ نہیں آریا تھا آیا سمیر کے بارے میں امی کو بتا دے یا نہیں. آخر کبھی تو بتانا ہے لیکن سمیر ہے کہاں؟
امی.. بیٹا ایک اچھی فیملی ہے. اپنا کاروبار ہے لڑکا پڑھا لکھا ہے. تصویر دیکھی ہے خوش شکل سمارٹ ہے. مجھے تو اچھا رشتہ لگا ہے.
تم بتاو تمہاری کیا راے ہے.
روزینہ ہکلاتے ہوے ام.. ی ی.. و.. ہ..
امی اس کا نام شاید ہاں سمیر ہاں یہی نام بتایا گیا تھا.. اور شاید تمہاری والی یونیورسٹی سے ہی پڑھا ہے…
روزینہ چہرہ اسپاٹ تھا لیکن آنکھیں ناچنے لگی تھی. دل قابو سے باہر ہو رہا تھا..
روَزینہ.. امی کیا سمیر خالد کی بات کر رہی ہیں..
امی.. ہاں ہاں بیٹا کیا جانتی ہو تم…
روزینہ.. کلاس میں دیکھا تھا..
امی اچھا کیا خیال ہے تمہارا…
روزینہ جیسا آپ مناسب سمجھے امی..
امی مسکراتے ہوے جیتی رہو بیٹی..
جلد خوشخبری ملے گی سب کو..
سمیر اور روزینہ کی شادی ہوگئی. دونوں کی زندگی پہلے سے بھی اچھی گزر رہی تھی. دونوں ایک دوسرے کو سمجھتے تھے. اخلاق سے پیش آتے. ایک دوسرے کا احترام کرتے. روزینہ کو سمیر اب بھی پہلے والا سمیر ہی لگا.. اس میں شادی سے کوئ تبدیلی نہیں ہوی وہ بہت چاہتا تھا. روزینہ کی ہر ضرورت کا خیال رکھتا. سمیر کے گھر والے بھی روزینہ کا خیال رکھتے. روزینہ بہت خوش تھی. خود کو خوش قسمت سمجھتی کہ سمیر جیسا لڑکا اسے ملا تھا.
شادی کو 4 سال گزر گئے… اللہ نے ایک بیٹی دو بیٹوں سے نوازا تھا. دونوں میاں بیوی کے رویہ میں آج تک کوئ فرق نہیں ہیدا ہوے.. دن بہ بدن ان کی محبت بڑھتی جاتی. اگر کوی مہمان آ جاتا تو ان کے ایک دوسرے کو مخاطب کرنے کے انداز اور عزت دیتے دیکھتا تو اش اش کر اٹھتا.
آج شادی کو 50 سال ہو گئے تھے. اب اولاد میں 3 بیٹوں کا اضافہ تھا. تقریباً جوان تھے. آج تک گھر میں کوی جھگڑا نہ ہوا تھا.
میاں بیوی کا ایک دوسرے کو مخاطب کرنے کا انداز پہلے جیسا ہی تھا. دونوں کی محبت میں اور عزت و احترام دینے میں کوی فرق نہ آیا تھا.. روزینہ بال سفید ہو گئے تھے مگر اب بھی سمیر کو چاہتی تھی اور خدمت کرتی تھی .
سمیر سفید داڑھی اور سفید قمیض شلوار میں لان میں بیٹھا. سوچوں میں گم تھا.. سوچ رہا تھا. شادی کو آج پچاس سال ہو گئے.. اللل کا شکر ہے کبھی ہمارے گھر کوی جھگڑا نہیں ہوا. شادی سے پہلے اس کے دوست اکثر ایسی باتیں کرتے تھے جیسے شادی کر کے انسان پھنس جاتا ہے. لڑای جھگڑے بے سکونی انسان کا مقدر بن جاتی ہے.. لیکن آج سوچتا ہے کہ وہ سب غلط تھے.
انسان اگر ہمیشہ اپنی اوقات کے دائرے میں رہے. ہمیشہ چادر دیکھ کر پاوں پھیلاے. خوش اخلاقی نرم لہجہ سچای اور سب سے بنیادی چیز محبت کو اپناے تو زندگی کا ہر لمحہ سکون سے گزارا جا سکتا ہے. برا وقت سب پر آتا ہے. اس پر انسان کا بس نہیں ہوتا.. نہ کسی انسان کا قصور ہوتا ہے. بنیادی شئے ہوتی ہے اس برے وقت میں بھی ثابت قدم رہنا. محنت اخلاق سچای ایمانداری اور محنت نہ چھوڑنا. اور اللل پر بھروسہ کرتے ہوے صبر رکھنا کیونکہ اللل صبر والوں کو کبھی رسوا نہیں کرتا.. ایسے ہی سوچ والے لوگ یمیشہ خوشحال زندگی بسر کرتے ہیں.
اچانک سے سمیر کو محسوس ہوتا ہے جیسے کوئی جنجھوڑ رہا ہو. امی کی آواز کانوں میں پڑھتی ہے. یونیورسٹی کا پہلا دن ہے ٹائم پر جاو.. سمیر فوراً بھڑک کر اٹھ بیٹھتا ہے. آنکھوں پر ہاتھ ملتے ہوے روم میں نظریں دوڑاتا ہے. روزینہ روزینہ…. اس کی امی دروازے پر نظر آتی ہے کیا بڑبڑا رہے ہو چلو اٹھو یونیورسٹی دیر نہ ہو جاے..
سمیر سر پر بے وجہ ہاتھ پھرتے ہوے .. تو کیا سب خواب تھا… اور بے بسی اے مسکرا کر رہ جاتا ہے…
سمیر کا آج یونیورسٹی میں پہلا دن تھا. یونیورسٹی کے گارڈن میں قدم رکھا ہی تھا کہ چکرا کر رہ گیا. سامنے ایک لڑکی ہو بہو روزینہ کی شکل کی چھوٹا سا ہینڈ بیگ لٹکاے اور باذوں میں ایک کتاب اٹھاے نظریں دوڑا رہی تھی جیسے کسی کی تلاش ہو.
سمیر تو جیسے بت بن کر رہ گیا ہو پلکیں چپکاے بغیر اسے گھورے جارہا تھا. اور پتہ بھی نہیں چلا وہ لڑکی اس کے قریب کھڑی اسے مخاطب کر رہی تھی
ہیلو مسٹر
سمیر کو جیسے ہوش آگیا ہو. ج ج ی ی… ہکلانے لگا..
لڑکی شاید آپ کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے..
سمیر.. مسکراتے ہوے. جی.. جی… یہی بات ہے..
لڑکی.. آیے سامنے کیفے پر وہیں بیٹھ کر بات کرتے ہیں.
سمیر… جی جی..
لڑکی. سمیر کو عجیب نظروں سے دیکھتے ہوے جیسے سمجھنے کی کوشش کر رہی ہو.
کیفے ہر بیٹھ کر چاے کا آ رڈر دینے کے بعد..
لڑکی.. آج میرا پہلا دن ہے یقیناً آپ کا بھی پہلا دن ہے.. پہلے دن میں اکثر ایسا ہو جاتا ہے.
سمیر… جی جی ہاں…
لڑکی میں کب سے کھڑی کسی جان پہچان والے کو تلاش کر رہی تھی کوئ نظر نہیں آیا.. سوچا آپ سے ہی جان پہچان کر لینی چاہیے.. آپ بھی شاید کسی اپنے کو ہی تلاش کر رہے تھے..
سمیر… جی جی…
لڑکی…. سوری میں تعارف کروانا بھول ہی گئی… میرا نام روزینہ ہے. اور میں….
سمیر کو اہنا دماغ بھاری محسوس ہونے لگا.. روزینہ کی آواز ایسے ہی لگ رہی تھی جیسے کوئ بہت دور سے پکار رہا ہو. اور سر میز پر ڈھلک گیا. وہ بے ہوش ہو چکا تھا..
روزینہ… ارے ارے کیا ہوا آپ کو………..